ایک اجڑی ہوئی ماں کی یہ فغاں شام میں ہے
ایک اجڑی ہوئ ماں کی یہ فغاں شام میں ہے
میں وطن جاوں بھی کیسے مری جاں شام میں ہے
اس قدر عابد بیمار چلا ہے پیدل
سامنے اس کی نگاہوں کے دھواں شام میں ہے
مجمع عام میں سیدانیاں بے پردہ ہیں
یہ امامت کے لیئے کوہ گراں شام میں ہے
آسماں نے بھی نہیں دیکھا جسے بے پردہ
ہائے غیرت کی وہ شہزادی کہاں شام میں ہے
کوئ برساتا ہے پتھر تو کوئ انگارہ
سر عباس جری گریہ کناں شام میں ہے
ہے کوئ شام میں جو آکے پلادے پانی
دختر ابن علی تشنہ دہاں شام میں ہے
کب وطن جائینگے اس قید سے بھیا ہم لوگ
اک یتیمہ کی ہر اک شام فغاں شام میں ہے
آنکھ کھولو ذرا اور حال سکینہ دیکھو
باپ کے سر سے یہ بچی کا بیاں شام میں ہے
روز یہ سوچکے تنہا ہے سکینہ میری
باپ جاتا ہے وہیں بچی جہاں شام میں ہے
قید سے اب بھی کسی دکھیا کی آتی ہے صدا
ساتھ بچی کے یوں لگتا ہے کہ ماں شام میں ہے
پھول سے جسم پہ دروں کے نشاں ہیں اتنے
ہائے غسالہ بھی خود اشک فشاں شام میں ہے
اے رضا دیکھ کے ہاتھوں پہ بہن کی میت
خون سجاد کی آنکھوں سے رواں شام میں ہے