منافقوں کو یہ سن کر بخار آیا ہے
منافقوں کو یہ سنکر بخار آیا ہے
کہ آج ضیغم پروردگار آیا ہے
هے جسکی خوشبو پہ ہر پهول ہر کلی قربان
چمن میں دیں کے وہی گلعذار آیا ہے
چلے ہیں جانب کعبہ نبی یہ کہتے ہوئے
تها برسوں جس کا مجهے انتظار ! آیا ہے
احد میں خیبروخندق میں میرا مولا علی
عدوئے دین خدا کو سدهار آیا ہے
دل عبادت ثقلین وار آیا ہوں
علی کی تیغ سے اک ایسا وار آیا ہے
عدوئے دیں کے سروں سے غرور کا پانی
بس ایک وار میں حیدر اتار آیا ہے
نظارہ کتنا حسیں ہے کہ شہر علم کا در
درونِ خانہء پروردگار آیا ہے
همارے مولا تو کعبہ میں آئے ہیں اے شیخ
بتاؤ تم بهی ! کہاں یار غار آیا ہے
علی کا نام تمهارے بزرگوں کے لب پر
بس ایک بار نہیں بار بار آیا ہے
علی کے حصہ میں آیا درود اور سلام
تمهارے حصہ میں لعنت کا ہار آیا ہے
کتاب حق کی قسم دین مصطفی بولا
جو خود ہی دین ہے وہ دیندار آیا ہے
اسی علی کے پسر کا علی بروز دهم
یزیدیوں کو تبسم سے مار آیا ہے
بڑے بڑوں کی بزرگی وہ کر نہ پائیگی
جو کام.کر کے ابهی شیرخوار آیا ہے
وہ جسکی سوکهی ہوئ روٹیاں ہیں دیں کی بقا
زمانے میں وہ غریب الدیار آیا ہے
کوئ طبیب نہ کر پائیگا علاج اسکا
علی کے بغض کا جسکو بخار آیا ہے
نبی نے اپنی دعاؤں میں جسکو مانگا تها
خدا کے گهر میں وہی جاں نثار آیا ہے
بتان کعبہ نے یہ بے قرار ہوکے کہا
خدا کے گهر کو علی سے قرار آیا ہے
رضا تمهاری بهی قسمت بنے گی حر کی طرح
علی کے در پر اگر شرمسار آیا ہے