بیان کیسے ہو مجھ سے بھلا مقام رضا
بیان کیسے ہو مجھسے بھلا مقامِ رضا
کہاں یہ مجھ سا غلام اور کہاں امامِ رضا
نسیم صبح خراساں سے قم جو آتی ہے
تو کہہ کے جاتی ہے معصومہ کو سلامِ رضا
وجود اس کا لرزتا ہے مثل حاکم شام
خطاب کرتا ہے دشمن سے جب غلامِ رضا
جو چاہتے تھے کہ ان کا وجود مٹ جائے
شکست بن گیا ان کے لیئے دوامِ رضا
لگے گا تم کو کہ نہج بلاغہ ہاتھ میں ہے
اٹھا کے ہاتھ پہ دیکھو کبھی کلامِ رضا
نظر اٹھا کے بھی دشمن نہ دیکھ پائے گا
تم اپنے ملک میں نافذ کرو نظامِ رضا
جناب فاطمہ معصومہ کا کرم ہے یہ
سجا کے جشن جو بیٹھے ہیں ہم بنامِ رضا
عدوئے دیں کی ولیعہدی کر رہے ہیں قبول
زمانے بھر سے الگ ہے یہ انتقامِ رضا
ہم اپنا فرض سمجھکر نماز کی مانند
کرینگے شام و سحر مدحتِ امامِ رضا
رضا کے نام سے آتی ہے یا علی کی مہک
علی کے نام سا مشکل کشاء ہے نامِ رضا
رگوں میں جسکی امیّہ کا خون جاری ہے
کبھی وہ کر نہیں سکتا ہے احترامِ رضا
یہاں پہ آ کے فرشتے بھی سر جھکاتے ہیں
زمانہ دیکھ لے مشھد میں احتشامِ رضا
درِ بہشت پہ پہنچا رضا تو بولے ملک
وہ دیکھو آتا ہے جنت میں اک غلامِ رضا
محتاج دعا۔۔۔
حافظ حسن رضا بنارسی