رزق شعور و فہم ملے آگہی ملے
پنجشنبه, ۱۲ ارديبهشت ۱۳۹۸، ۰۱:۰۴ ق.ظ
رزق شعور و فہم ملے آ گہی ملے
بس شرط ہے دعاوں میں نام علی ملے
پوری حیات عشق علی میں گزار دو
گر چاہتے ہو مر کے تمہیں زندگی ملے
دریا تڑپ کے کہنے لگے العطش عطش
دریا سے گر حسین کی تشنہ لبی ملے
ان سے کہو کہ روئیں فقط وہ حسین پر
جو چاہتے ہیں دنیا کی ساری خوشی ملے
فرش عزا ، جری کا علم ، شہ کا تعزیہ
جو بھی ہمیں ملے ہیں بہت قیمتی ملے
تم عاشق حسین ہو اتنا رہے خیال
فاقوں میں بھی تمہارے لبوں پر ہنسی ملے
سیراب ہو نہ پاوں کبھی اے مرے خدا
عشق علی کی ایسی مجھے تشنگی ملے
لگتی ہو جس کے در پہ فرشتوں کی بھی قطار
لے آؤ گر کہیں کوئ ایسا سخی ملے
۹۸/۰۲/۱۲