ہمارے لب پہ جو آتا ہے بار بار علی
ہمارے لب پہ جو آتا ہے بار بار علی
دل عدو میں یہ چبھتا ہے مثل خار علی
بتوں سے کہدو سمیٹیں وہ بوریا بستر
کہ آج آ گیا کعبے کا ورثہ دار علی
طلب نہ کرتے سلیماں کبھی حکومت کی
وہ دیکھ لیتے تمھارا اگر دیار علی
یقیں ہوا در و دیوار کان رکھتے ہیں
تمھارے ذکر سے جب خوش ہوئ جدار علی
جدار خانہ کعبہ نے مسکرا کے کہا
تمھارے آنے سے آیا مجھے قرار علی
کبھی بھی مارا نہیں بے خطا کو میداں میں
تمھارے جیسے ہی عادل ہے ذوالفقار علی
نماز پڑھتے ہیں جس کے لیئے مصلے پر
اسی کے واسطے کرتے ہیں رن میں وار علی
کتاب حق کی قسم دین مصطفی بولا
جو خود ہی دین ہے۔۔ ہے ایسا دیندار علی
نہ جانے کتنوں کا شجرہ پتہ چلا مجھکو
مری زبان پہ آیا جو ایک بار علی
کبھی بھی نام تمھارا وہ لے نہیں سکتا
وہ جسکی ماں کا نہیں کوئ اعتبار علی
تمھارے نام سے پاتے ہیں ہم شفا لیکن
کسی کو آتا ہے اس نام سے بخار علی
ہیں مومنوں کے لیئے امن اور امان مگر
برائے کفر ہیں اک برق شعلہ بار علی
کہا خدا نے تمھاری ہی شکل و صورت میں
تمھیں میں دونگا تمھارں ہی یاد گار علی
بشکل اکبر و عباس و اصغر و سجاد
زمین کرب و بلا پر ہیں چار چار علی