آمد شبیر سے پھیلی ہے ایسی روشنی
*آمدِ شبیر سے پھیلی ہے ایسی روشنی*
*جس کے آگے چاند سورج کی ہے پھیکی روشنی*
*حضرتِ شبیر نے گل کر دیئے سارے چراغ*
*پھر بھی ہے خیمے میں ہر سو روشنی ہی روشنی*
*جھک کے سورج بھی سلامی دے رہا ہے بار بار*
*ہے جناب جون کے چہرے پہ ایسی روشنی*
*پھر یزیدی تیرگی میں رہ نہ پایا چین سے*
*بھا گئ کچھ اسقدر حر کو حسینی روشنی*
*خیمہ شبیر میں ہے حر کا آنا ہی دلیل*
*فاطمہ کے چاند نے فکروں کو بخشی روشنی*
*درمیانِ حق و باطل کھینچ دی شہ نے لکیر*
*ورنہ ظلمت کو یہ دنیا کہتی رہتی روشنی*
*بغض حیدر کے اندھیرے میں ہوئے ہیں جو جواں*
*ان کو کیا معلوم ہو ہوتی ہے کیسی روشنی*
*فاطمہ کا چاند جب عرش سناں پر آ گیا*
*کربلا کے دشت میں تب اور پھیلی روشنی*
*نوک نیزہ سے سر شبیر نے آواز دی*
*خنجروں سے کٹ نہیں سکتی کبھی بھی روشنی*
*تم یزید نحس کے ہو اور ہم شبیر کے*
*ہے تمہاری تیرگی اور ہے ہماری روشنی*
*ماتم شبیر بھی کر ، سجدہ خالق بھی کر*
*چاہئے گر کربلا کی پوری پوری روشنی*
*چاند تارے دے رہے ہیں روشنی کونین کو*
*فاطمہ کے چاند سے لیکر ذرا سی روشنی*
*تیرگی فوج ستم کی آنکھ سے رونے لگی*
*بے زباں کے ہونٹ سے جب مسکرائ روشنی*
*اس لیئے خاک شفا ہم قبر میں بھی لے گئے*
*تاکہ ہو جائے ہماری قبر میں بھی روشنی*
*جس زمیں میں دفن ہے چاند آپ کا اے فاطمہ*
*اس زمیں کی دے رہی ہے ساری مٹی روشنی*
*تیرگی ظلم میں وہ رہ نہیں سکتا رضا*
*جس بشر کو مل گئ ہے کربلائ روشنی*