مولا نہ تنہا جائیے اکبر کی لاش پر
مولا نہ تنہا جایئے اکبر کی لاش پر
کہتی رہی ضعیفی یہی ہاتھ جوڑ کر
مولا نہ تنہا جایئے اکبر کی لاش پر
برچھی لگی ہے سینہ اکبر مین شاہ دیں
مچلھی کی طرح رن میں تڑپتا ہے وہ حزیں
اور ایڑیاں رکڑتا ہے مقتل کی خاک پر
مولا لہولہان ہے تصویر مصطفی
منظر یہ رن میں آپ سے دیکھا نہ جائے گا
بحر خدا نہ جایئے اے شاہ بحر و بر
مولا نہ تنہا جایئے اکبر کی لاش پر
عباس کی جدائ سے خم ہو گئ کمر
اور اب علی کے جانے سے ایسا ہوا اثر
آتا نہین ہے آپ کو جنگل میں کچھ نظر
مولا نہ تنہا نہ جائیے۔۔۔۔
غلطاں ہے خاک و خون میں لیلی کے دل کا چین
کیسے کرینگے صبر بھلا آپ اے حسین
اکبر کی زندگی کا ہے اب آخری سفر
مولا نہ تنہا جائیے اکبر کی لاش پر
تیر و تبر کے بیچ ہے فرزند نوجواں
پہونچگے کیسے آپ اے سردار انس و جاں
ہے اکبر حزیں کے لیئے سخت یہ پہر
پیری پہ اپنی آپ ذرا رحم کھائیے
کڑیل جواں کی لاش پہ تنہا نہ جایئے
زینب کو لے کے جایئے اکبر کی لاش پر
دن بھر جگر کے ٹکڑوں کا لاشہ اٹھائے ہیں
مقتل سے خیمہ خیمے سے مقتل میں آئے ہیں
کیسے اٹھے گا آپ سے اب لاشہ پسر