یہ اور بات ہے کہ ستم پر ستم ہوئے
پنجشنبه, ۱۲ ارديبهشت ۱۳۹۸، ۱۲:۳۰ ق.ظ
یہ اور بات ہے کہ ستم پر ستم ہوئے
لیکن غدیریوں کے کبھی سر نہ خم ہوئے
یہ بس در علی کی فقیری کا ہے کمال
دولت کے سامنے کبھی رسوا نہ ہم ہوئے
سچے غلام بن گئے جو اھلبیت کے
بے شک انھیں کے حصے میں جاہ و حشم ہوئے
عاشور کو بھی غم جو مناتے نہیں وہ لوگ
کس بات پر غدیر کے دن چشم نم ہوئے
سورج کی آنکھیں ہو گئیں خیرہ یہ دیکھ کر
دو آفتاب ایک افق پر بہم ہوئے
اعلاں ہوا ولایت حیدر کا جس جگہ
ذرے بھی اس زمین کے رشک ارم ہوئے
سن کر زبان وحی سے من کنت کی صدا
مسرور کچھ ہوئے کچھ اسیر الم ہوئے
۹۸/۰۲/۱۲