یہ اور بات ہے کہ ستم پر ستم ہوئے
لیکن غدیریوں کے کبھی سر نہ خم ہوئے
یہ بس در علی کی فقیری کا ہے کمال
دولت کے سامنے کبھی رسوا نہ ہم ہوئے
سچے غلام بن گئے جو اھلبیت کے
بے شک انھیں کے حصے میں جاہ و حشم ہوئے
ہمارے لب پہ جو آتا ہے بار بار علی
دل عدو میں یہ چبھتا ہے مثل خار علی
بتوں سے کہدو سمیٹیں وہ بوریا بستر
کہ آج آ گیا کعبے کا ورثہ دار علی
یہ جو مجلس ہے یہ آنسو ہیں یہ غمخواری ہے
یہ عزاداری نہیں خلد کی تیاری ہے
پوچھنے آتی ہے ہر سال شب عاشورہ
مثل حر کیا کسی انسان میں بیداری ہے
فاطمہ کا لاڈلا ابن علی پردے میں ہے
یعنی باغ مصطفی کی تازگی پردے میں ہے
اس لیئے ہم قتل ہوکر بھی ہیں زندہ آج تک
ہم ہیں باہر پر ہماری زندگی پردے میں ہے
دنیا یہ پوچھتی ہے غم شہ نے کیا دیا
کیا کم ہے ہمکو ظلم کا چہرہ دکھا دیا
میں نے دیا جلایا ہے غازی کے نام پر
طوفانو ! تم بجھا کے دکھاؤ مرا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بن ملجم نے یہ کیسا کیا ہے وار سجدے میں
لہو سے ہوگئے تر حیدر کرار سجدے میں
۔۔۔۔
یہ سنکر شبر و شبیر مسجد کی طرف دوڑے
ہوئے زخمی ہمارے والد غمخوار سجدے میں
۔۔۔۔
لاشہ عون و محمد پہ یہ زهرا نے کہا
اے مرے بچو ! تمهیں رونے کو میں آئ ہوں
ماں تمهاری نہیں کر پائ ہے تم پر گریہ
اے مرے بچو ! تمهیں رونے کو میں آئ ہوں
مولا نہ تنہا جایئے اکبر کی لاش پر
کہتی رہی ضعیفی یہی ہاتھ جوڑ کر
مولا نہ تنہا جایئے اکبر کی لاش پر
برچھی لگی ہے سینہ اکبر مین شاہ دیں
مچلھی کی طرح رن میں تڑپتا ہے وہ حزیں
اور ایڑیاں رکڑتا ہے مقتل کی خاک پر
لاش جری پہ فاطمہ زہرا نے دی صدا
*عباس المدد میرے عباس المدد*
کٹتا ہے میرے لال کا سوکھا ہوا گلا
*عباس المدد مرے عباس المدد*