درتے ہیں
چهارشنبه, ۲۹ آبان ۱۳۹۸، ۰۲:۴۸ ب.ظ
*علم سے ڈرتے ہیں فرش عزا سے ڈرتے ہیں*
*ستمگر آج بھی کرب و بلا سے ڈرتے ہیں*
*عجب چراغ ہیں ، جن سے ہوائیں ڈرتی ہیں*
*چراغ ورنہ ہمیشہ ہوا سے ڈرتے ہیں*
*انھیں پتہ ہے کہ طوفان اس میں سمٹا ہے*
*اسی لیئے تو وہ اشک عزا سے ڈرتے ہیں*
*مریض کو بھی پنہاتے ہیں آہنی زنجیر*
*نہ جانے کتنا یہ زین العبا سے ڈرتے ہیں*
*نجس لہو کے اندھیروں نے جنکو گھیرا ہے*
*وہ لوگ عشق علی کی ضیا سے ڈرتے ہیں*
۹۸/۰۸/۲۹