بنا کے تربت اصغر حسین روتے ہیں
دوشنبه, ۹ ارديبهشت ۱۳۹۸، ۰۲:۳۵ ب.ظ
*بنا کے تربت اصغر حسین روتے ہیں*
*زمیں میں چاند چھپاکر حسین روتے ہیں*
*لحد صغیر کی تر کس طرح کریں آخر*
*نہیں ہے آب میسر حسین روتے ہیں*
*اے شیعو دیکھتے تم کاش بیکسی میری*
*قدم قدم پہ یہ کہکر حسین رورے ہین*
*علی کی تیغ بھی رونے لگی خدا کی قسم*
*جو دیکھا صبر کے پیکر حسین روتے ہیں*
*بس ایک گھونٹ پلا دو صغیر کو پانی*
*ستمگروں سے یہ کہہکر حسین روتے ہیں*
*نکالی جاتی ہے اصغر کی لاش تربت سے*
*سناں سے دیکھ کے منظر حسین روتے ہیں*
*ہر ایک خیمے سے آتی ہے العطش کی صدا*
*صدائیں پیاسوں کی سن کر حسین روتے ہیں*
*زمیں پہ گر گئے گھوڑے سے منہ کے بل عباس*
*جری کے ہاتھ اٹھا کر حسین روتے ہیں*
*تماشہ دیکھنے والوں کے درمیاں ہے ہے*
*بہن ہے آج کھلے سر حسین روتے ہیں*
*پڑے ہیں رن میں جنازے ہر ایک سمت رضا*
*کلیجہ اپنا پکڑ کر حسین روتے ہیں*
۹۸/۰۲/۰۹