ہر قدم پر مجھے ظالم نے ستایا بابا
ہر قدم پر مجھے ظالم نے ستایا بابا
میں جو روئ تو طمانچہ بھی لگایا بابا
میری گردن میں رسن باندھ کے اھل شر نے
کوفہ و شام کی راہوں میں پھرایا بابا
*ہر قدم پر مجھے ۔۔۔*
میں نے پانی جو کبھی مانگا تو پانی نہ دیا
ہاں میرے سامنے مٹی پہ بہایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
میرے پیروں سے لہو رستا ہے اب تک دیکھو
اسقدر کانٹوں پہ ظالم نے چلایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
روتے روتے جو کبھی تھک کے میں خاموش ہوئ
آپ کا سر مجھے دکھلا کہ رلایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔*
میرے عمو بھی نہ آئے میری نصرت کے لیئے
میں نے ہر موڑ پہ عمو کو بلایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
تھک کہ جب سو گئ میں خاک کے بستر پہ کبھی
آپ کی یادوں نے آ آ کے جگایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
یاد آیا مجھے دادی کا شکستہ پہلو
اونٹ کی پشت سے جب مجھکو گرایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔*
مجھ پہ وہ ظلم زمانے نے کیا ہے کہ مجھے
اب نظر آتا ہے ہر شخص پرایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
پیار سے آپ سلاتے تھے مجھے سینے پر
اس لیئے اور بھی ظالم نے ستایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔*
آپ کو جب بھی میں روئ تو طمانچے کھائے
مجھ پہ ظالم کو کبھی رحم نہ آیا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔۔*
اے رضا ہو گئ یہ کہہ کے سکینہ خاموش
کون سا ظلم ہے جو مجھ پہ نہ ڈھایا بابا
*ہر قدم پر مجھے۔۔*
29 اکتوبر 2018