سن کے لہجے میں ترے خطبہ حیدر زینب
سنکے خطبہ میں ترے لہجہ حیدر زینب
حاکم شام کو آنے لگا چکر زینب
تری چوکهٹ پہ جهکا دیتا ہے جو سر زینب
روزوشب اسکا چمکتا ہے مقدر زینب
نام سنتے ہی ترا کانپنے لگتا ہے ستم
کسقدر ظلم کو ہے اب بهی ترا ڈر زینب
شور اٹها کے ہٹو بهاگو قیامت آئ
جب گئے رن میں ترے دونوں غضنفر زینب
آمنہ بی بی کی گودی میں پیمبر تهے اگر
ہے تری گود میں ہمشکل پیمبر زینب
غرق کرنے کے لیئے ظلم و ستم کا بیڑا
ہے ترا صبرورضا ایک سمندر زینب
بے ردائ میں اگر تیرا اشارہ ہوتا
حوریں لے آتیں ترے واسطے چادر زینب
کوفہ و شام کے مکار مسلمانوں سے
دین اسلام کو لے آئ بچا کر زینب
کام شمشیر کا خطبوں سے لیا کرتی ہیں
سارے عالم میں ہیں بے مثل سخنور زینب
تختہ شام الٹ دے تو تعجب کیا ہے
شیر کی بیٹی ہے اور شیر کی خواہر زینب
مری تعظیم سلاطین زمن کرنے لگے
میں ترے در کا ہوا جب سے گداگر زینب
چرخ والوں میں بهی ہونے لگا اس کا چرچہ
ہو گیا جب سے رضا تیرا ثناگر زینب
حسن رضا بنارسی