ہم.نے جب جب کی بیاں منبر سے توقیر غدیر
ہم نے جب جب کی بیاں منبر سے توقیر غدیر
قلب دشمن پر چلی رہ رہ کے شمشیر غدیر
وحی کا پہرہ لگا ہے جس کے اک اک حرف پر
وجد میں وہ کر رہا ہے آج تقریر غدیر
پرورش جس کی سقیفہ کے اندھیروں میں ہوئی
اس کے دل میں آ نہیں سکتی ہے تنویر غدیر
اس لیئے شبیر اپنا خون دینے آئے ہیں
کربلا کی شکل میں ہونی ہے تعمیر غدیر
ہے حسین ابن علی کے دست پر چھوٹا علی
اے پیمبر دیکھئے مقتل میں تصویر غدیر
بھاگنے کی جنکو عادت تھی ہر اک میدان سے
ان کے پاؤں میں پڑی ہے اب بھی زنجیرِ غدیر
فخرِ موسی کی قدم بوسی کا پایا ہے شرف
بڑھ گئ ہے طور سینا سے بھی تقدیر غدیر
شیخ سے جب بھی کیا میں نے غدیری تذکرہ
ایسے بھاگے جیسے ان کو چبھ گیا تیر غدیر
آیہ بلغ کی بس تفسیر کر لو شیخ جی
خود بخود ہو جائے گی ہر رخ سے تفسیر غدیر
یہ سقیفہ کے منافق کیا بتائینگے تمھیں
صاحب ایماں سے پوچھو کیا ہے تاثیر غدیر
یوں اٹھی باغ نبوت سے ولایت کی مہک
گویا بعثت ہوگئ آ کر بغلگیرِ غدیر
یہ ہماری ماوں کی پاکیزگی کا ہے ثبوت
ذھن و دل میں گونجتی رہتی ہے تکبیر غدیر
خود بخود ہو جائے گی تبلیغ دین مصطفی
گرکریں سارے مبلغ صرف تشہیر غدیر
آپ کو قرآن میں بھی مل نہیں پائ مگر
مل گئ ہم کو بخاری میں بھی تحریر غدیر
حکمرانی جب امام وقت کی ہو جائے گی
تب یہ دنیا دیکھ لے گی کیا ہے تعبیر غدیر
قم سے مشھد آ گیا ہوں آج مدحت کے لیئے
اے رضا کہتا ہوں میں اس کو بھی تاثیر غدیر